مہتاب ہے نہ عکس رخ یار اب کوئی
مہتاب ہے نہ عکس رخ یار اب کوئی
کاٹے تو کس طرح یہ شب تار اب کوئی
ممکن ہے دست و بازوئے قاتل تو تھک بھی جائے
شاید تھمے نہ دیدۂ خونبار اب کوئی
اہل جفا سے کہنا تراشیں صلیب و دار
شایان سرو قامت دل دار اب کوئی
ہر عہد میں اگرچہ رہا جرم حرف حق
شاید نہ آئے ہم سا گنہ گار اب کوئی
ہاں اے جنون سرمدؔ و منصورؔ کو نوید
اس دھج سے آئے گا نہ سر دار اب کوئی
شہر ہوس میں قدر وفا تیرے دم سے تھی
اس جنس کا نہیں ہے خریدار اب کوئی
اے کج کلاہ آبلہ پایان راہ شوق
شاید ہی گل کھلائے سر خار اب کوئی
جتنا لہو تھا صرف قبا ہو چکا تمام
کوئے وفا میں آئے نہ زنہار اب کوئی