پھر وہی رات
پھر وہی رات ہے ویرانئ دل ہے میں ہوں تم نہ مل کر جو بچھڑتیں تو بہت آساں تھا زیست کے اجنبی رستوں سے گزرنا میرا تم نے بدلا جو نہ ہوتا مرا معیار نظر کوئی مشکل نہ تھا دنیا میں بہلنا میرا اپنی تنہائی کا درد آج کہاں سے لاؤں کس سے فریاد کروں کس سے مداوا چاہوں بھول تک بھی نہ سکوں جس کو ...