لذت سنگ نہ پوچھو لوگو عمر اگر ہاتھ آئے پھر
لذت سنگ نہ پوچھو لوگو عمر اگر ہاتھ آئے پھر
مجنوں بن کر صحرا صحرا کوئی اسے گنوائے پھر
ہم نے تو اس ایک آس پر سارے دیپ جلائے پھر
رات کبھی ساتھ آئے کسی کے شاید اور نہ جائے پھر
یوں بھی اپنا عہد جوانی خواب تھا دل کش چہروں کا
اور غبار وقت نے تو وہ چہرے بھی دھندلائے پھر
سب کے اپنے اپنے دکھ ہیں سننے والا کوئی نہیں
سننے والا کوئی نہ ہو تو کس کو کوئی سنائے پھر
عشقیؔ تم نے عمر گزاری ہے امید بہاراں میں
اور ایام بہاراں بھی گر تم کو راس نہ آئے پھر