موت کا کیوں کر اعتبار آئے
موت کا کیوں کر اعتبار آئے کہ شب غم بھی ہم گزار آئے کسی حیلے کسی بہانے ہم کوئے جاناں میں بار بار آئے ایک خوئے وفا کے رشتے سے یاد کتنے ستم شعار آئے کس کو ہوتی نہیں ہے جان عزیز ہم مگر پھر بھی سوئے دار آئے ان سے ترک وفا کریں کیوں کر جن پہ بے اختیار پیار آئے