لطف سے تیرے سوا درد مہک جاتا ہے
لطف سے تیرے سوا درد مہک جاتا ہے
یہ وہ شعلہ ہے بجھاؤ تو بھڑک جاتا ہے
اک زمانے کو رکھا تیرے تعلق سے عزیز
سلسلہ دل کا بہت دور تلک جاتا ہے
تم مرے ساتھ چلے ہو تو مرے ساتھ رہو
کہ مسافر سر منزل بھی بھٹک جاتا ہے
ہم تو وہ ہیں ترے وعدہ پہ بھی جی سکتے ہیں
غنچہ پیغام صبا سے بھی چٹک جاتا ہے
مستئ شوق سنبھلنے نہیں دیتی عشقیؔ
جام لب تک نہیں آتا کہ چھلک جاتا ہے