پھر اسی شوخ کی تصویر اتر آئی ہے
پھر اسی شوخ کی تصویر اتر آئی ہے
مرے اشعار میں مضمر مری رسوائی ہے
دیکھنے دیتا نہیں دور تلک دل کا غبار
جس سے ملئے وہ خود اپنا ہی تماشائی ہے
شہر میں نکلو تو ہنگامہ کہ ہر ذات ہو گم
ذات میں اترو تو اک عالم تنہائی ہے
زخم ہر سنگ ہے اس دست حنا کا ہم رنگ
خوب اس شوخ کا انداز پذیرائی ہے
دل نے جب بھی کوئی سادہ سی تمنا کی ہے
زندگی ایک نیا زخم لگا لائی ہے
چاک دل لاکھ سہی چاک گریباں بھی کرو
التفات اس کا بہ اندازۂ رسوائی ہے