Shabnam Ashai

شبنم عشائی

شبنم عشائی کی نظم

    نظم

    وہ لوگوں کو روتا دیکھ کر ہنس پڑتی ہے اور جب اسے ہنسنا ہوتا ہے کسی کو بھی رلا دیتی ہے آج اس نے مجھے رلا دیا جب میری آنکھیں روتے روتے سوج گئیں تو کہنے لگی اب میں جی اٹھی ہوں تازہ ہو گئی ہوں میں لرز گئی اللہ تیرے بندے کیسی کیسی غذا لیتے ہیں خود کو زندہ رکھنے کے لیے

    مزید پڑھیے

    نظم

    ایک روز میں نے سجدے سے سر اٹھایا وہ وہ تھا ہی نہیں جس کو میں پوج رہی تھی

    مزید پڑھیے

    نظم

    دغا نے مجھے تہ نشیں رکھا میرے حوصلے میری وفا مسرتیں عشق اور خواب تہوں کے بیچ راکھ ہو گئے میرے چاپ کی زبان دب گئی زندگی دبتی نہیں مجھے دھڑکا سا لگا ہے! دغا بازوں کو خدا کا بھی خدشہ نہیں وہ پانی سے مٹی سے ریت سے نہیں پانچوں وقت مکاری کی جھاگ سے وضو بناتے ہیں اور زندگی کے تانڈؤ ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    لاؤ ذرا پہن لوں تمہیں تنہائی اتار دی میں نے باہر کاریڈور میں پڑی سسک رہی ہے اپنے دھیمے لہجے میں وہ ساری داستانیں سناتی جنہیں سن کر میں دھیمی آنچ پر پہروں سلگتی تھی لاؤ ذرا پہن لوں تمہیں وہ کی ہول سے جھانک رہی ہے جیسے ہم موقعہ پاتے ہی اپنے اصل میں جھانکتے ہیں اس سے پہلے کہ وہ مجھے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    وہ جو تیز دھوپ کے کھردرے راستوں پر بے رنگ ہو گئی تھی ایک وقت کی ست رنگی اوڑھنی تھی بے رنگ کو دنیا کسی بھی رنگ میں رنگ دیتی ہے ایک دن وہ بھی رنگریز کے ہاتھوں رنگ گئی اور اوڑھنی پھٹ گئی

    مزید پڑھیے

    نظم

    اگر تمہارے تین ہزار پیڑوں میں سے ایک میں بھی ہوتی تو ایک سال میں چھ اسپرے ایک کھاد اور تمہاری ہزاروں چاہت بھری نظریں مجھے نصیب ہوتی اور تب دل سوگوار نہ ہوتا میری ہر ٹہنی تم اپنے ہاتھوں تراشتے میں سنور جاتی ہوا مجھ میں سانس بھرتی دھوپ اور بادل میرے دل کی سرخ سچائیوں میں جھلمل ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    کہیں میں اندھی تو نہیں وہ سب کہاں ہیں قافلہ منزل پھر چلتے چلتے ایک مدت بھی تو ہوئی اب سورج بھی ڈوبنے کو ہوگا کہیں کوئی پیڑ بھی نہیں جس کی چھاؤں میں مطمئن بیٹھ جاتی فقط ایک سنسان راستہ اور میں یا اللہ کچھ نہیں تو ایک دراڑ ملے جہاں میں چھپ جاؤں اور بس

    مزید پڑھیے

    نظم

    جب ہم کسی خیال کو زندگی دینے سے رہ جاتے ہیں تو وہ دفن ہو کر من میں قبر بنا لیتا ہے ایسی قبریں بنا کتبے کے ہوتی ہیں اور چرواہے اکثر مویشیوں کو ایسے قبرستانوں میں چراتے ہیں قبریں اندھی ہوتی ہیں خیال اندھے نہیں ہوتے وہ قبر سے بھی جھانکتے رہتے ہیں گزرتے ہوئے ہر پیر کی آہٹ کا مزہ لیتے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    اگلی فون کال پہ وہ تمام چراغ بجھ جاتے ہیں جو میں پہلی فون کال کے بعد جلاتی ہوں! چراغ جلاتے جلاتے میں اپنی انگلیاں بھی جلا لیتی ہوں میری انگلیاں جھلسنے کا اندراج تم اپنی کون سی فائل میں رکھ رہے ہو

    مزید پڑھیے

    نظم

    وجود کے جو حصے وجود کی تلاش میں کھو جاتے ہیں ان کا اندراج زندگی کی کسی بھی فائل میں نہیں ملتا ہاں ان نظموں میں جو آنسوؤں کی روشنائی سے لکھی گئی ہوں وہ حصے بستے ہیں لیکن پھر ہمیں تاریکی کو اپنا نشیمن بنانا پڑتا ہے اس راز سے زندگی نہیں وجود واقف ہے اور ہم وجود نہیں زندگی جیتے ہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4