نظم
دغا نے مجھے
تہ نشیں رکھا
میرے حوصلے
میری وفا
مسرتیں عشق اور خواب
تہوں کے بیچ راکھ ہو گئے
میرے چاپ کی زبان دب گئی
زندگی دبتی نہیں مجھے دھڑکا سا لگا ہے!
دغا بازوں کو
خدا کا بھی خدشہ نہیں
وہ پانی سے مٹی سے
ریت سے نہیں
پانچوں وقت
مکاری کی جھاگ سے
وضو بناتے ہیں
اور زندگی کے تانڈؤ کا
سجدہ کرتے ہیں
میں
سجدے میں بڑبڑاتی ہوں
اے موت گلے لگا لے
زندگی دبتی نہیں مجھے دھڑکا سا لگا ہے