Shabnam Ashai

شبنم عشائی

شبنم عشائی کی نظم

    نظم

    تمہاری رضا کو لوگ میری خطا کہتے ہیں میرے ہاتھوں سے وہ پوشاک چھین لی گئی جو میں پہننے والی تھی اور پہنی ہوئی پوشاک میں اتار چکی تھی میرے سارے آنے والے موسم منسوخ کر دیے گئے تھے میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا اپنا سر تسلیم خم کر دیا تھا مجھے اتنی ایذا دی گئی کہ ارمانوں کا ریشم کاتنا اب ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    کرفیو زدہ شہر کی بیوہ سڑکیں آنکھیں کھولتی ہیں نگر کے گربھ میں کیا دیکھتی ہیں نہیں معلوم حیرت زدہ ہیں دھرتی شاید گربھ دھارن کر رہی ہے چاند چھپ کر کھڑکیوں سے جھانکتا ہے آوارہ کتے ٹولیوں میں بھونکتے ہیں زندگی برہنہ سو رہی ہے میں رات سی کٹ رہی ہوں پوری وادی میں کرفیو نافذ ہے

    مزید پڑھیے

    تنہائی میرا لباس ہے

    رشتے میرے من کی اترن ہے قربتوں کا لمس دائمی نہیں تنہائی کا لمس سچا ہے پر من پگلا ہے بچے جیسے روتا ہے محبت پہننا چاہتا ہے دل کی محبت رات کو سڑکوں پہ بکتے غباروں جیسے ہوتی ہے جس کی گیس آدھی رات کو گھر پہنچنے تک نکل جاتی ہے جانتی ہوں پر من پگلا ہے بچے جیسے روتا ہے

    مزید پڑھیے

    نظم

    سنو کیا سچ مچ نہیں بلاؤ گے مجھے تمہارے غازی سے میں نے کہا تھا موت کا انتظار کر رہی ہوں وہ کہہ رہا تھا موت مجھ جیسے بد کاروں کو آتی نہیں تم تو سبھی کو بلاتے ہو مجھے موت کیوں نہیں آئے گی مولا تم نے جو جہنم بھی بنائی ہے میں تمہارے بندوں کی بنائی ہوئی جنت میں کب تک ٹھہروں؟

    مزید پڑھیے

    نظم

    یہ میں تمہیں دیکھ رہی ہوں یا..... یہ میرے ارد گرد تمہاری پرچھائیاں ہیں یا..... یہ تم اقرار کی ریت پر میرا نام لکھ رہے ہو یا..... یہ تم چنار کے سوکھے پتوں سے میرے لیے آگ روشن کر رہے ہو یا..... یہ تم میری آنکھوں کو خواب دے رہے ہو یا..... سنو، میں جس روز یا..... کے بعد کے خیالوں کو نظم کرنے کے قابل ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    تم نے جو روٹی مجھے کھلائی وہ میری سوچ اور فیصلہ کرنے کی طاقت مجھ سے چھین کر تم نے خریدی تھی جس چاہت کے چشمے کا پانی تم مجھے پلا رہے ہو میرے جسم کی آمادگی سے پھوٹتا ہے میری تشنہ روح میری نسوں کو چاٹ رہی ہے میں سکڑ رہی ہوں اور تمہاری آرزوؤں کی رگیں کسی خواب کے نشے کی طرح پھیل رہی ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    اس کو تاریخ سے آزادی دی گئی تھی وہ اتنا چلی کہ اس کا کوئی بھی ناخن نہیں بچا بنا ناخن کی انگلیاں بھدی ہی نہیں بیکار ہو جاتی ہیں پھر وہ بہنے لگی اور بہتی رہی اپنی اننت دھارا میں تاریخ بہاؤ کی خوبصورتی کیا سمجھتی باندھ باندھے بنا یہ سوچے کہ سڑاندھ پیدا ہو جانے پر دم گھٹ سکتا ہے تاریخ ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    سچ سے گھر نہیں بنتے میری لکڑی سچ تھی گھر نہیں کشتی بنی سچ کی کشتی کو کھیتی ہوئی میری روح نہ جانے کن کن پانیوں سے گزر رہی ہے پانی کی شکل مقرر نہیں مرنے کا وقت مقرر ہوتا ہے کشتی کو میری روح سے زیادہ پانی موافق ہے دیو دار کی عمر پانی میں بڑھ جاتی ہے اور دنیا میں ڈھونگ نہ رچانے والے کی ...

    مزید پڑھیے

    کن سوچوں میں ڈوبے ہو

    ہاں میں اسی پانی کی بوند ہوں جو تمہارے کمرے کے کونے میں پڑی صراحی میں رہتا تھا آخر کار تمہارا سمندر نہ جانے کتنے دریاؤں کا پیاسا تھا اور جگ جگ پھرتا تھا میں ہر شام صراحی کی حدیں پار کرتی تمہارے ہونٹ طراوت کے ذائقے لیتے جگ جگ پھرنے کی تھکن مٹ جاتی پر ہر جگ سے لایا گیا گیان تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    میں

    اور تنہائی سو رہے تھے تمہارا خط آیا ایک بھاری پاؤں تنہائی کے سینے پر پڑا چیخ پڑی اور لپٹ گئی مجھ سے اس کی باہوں کی قید میں تمہارا خط پڑھا پھر پڑھا بار بار پڑھا دل دھڑکا وہ دیکھتی تو ڈر جاتی من میں شور سا اٹھا وہ سنتی تو مر جاتی میں نے اس کا چہرہ تکیے سے چھپا لیا اس کی آنکھ کھلی خفا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4