Shabbir Ahmad Shad

شبیر احمد شاد

شبیر احمد شاد کی غزل

    پتا تا زندگی پایا نہ خوشیوں کے ٹھکانے کا

    پتا تا زندگی پایا نہ خوشیوں کے ٹھکانے کا یہ جرمانہ لگا ہم پر کسی سے دل لگانے کا ہمارے حوصلوں کی آسماں بھی داد دیتا ہے طواف اب بھی کیا کرتی ہے بجلی آشیانے کا مری آنکھوں میں اپنے گاؤں کے دل کش مناظر ہیں ارادہ کر لیا ہے میں نے بھی گھر لوٹ جانے کا غزل کا پیرہن میں ذہن کے سانچے میں ...

    مزید پڑھیے

    کس دکھے دل کی بد دعا ہوں میں

    کس دکھے دل کی بد دعا ہوں میں آج کل خود سے بھی خفا ہوں میں کوئی مجھ سے مجھے ملا دیتا جسم سے اپنے لاپتہ ہوں میں ہم پہ الزام کوئی مت رکھنا وہ مرا اس کا ہو گیا ہوں میں میرے نزدیک آ گیا ہے تو تیری آہٹ کو سن رہا ہوں میں جن کی چاہت میں ہو گیا برباد اب وہ کہتے ہیں بے وفا ہوں میں درد سینے ...

    مزید پڑھیے

    اک ذرا گرم لو کے چلتے ہی

    اک ذرا گرم لو کے چلتے ہی پھول مرجھا گئے ہیں کھلتے ہی جاگ اٹھیں ضرورتیں سب کی آفتاب سحر نکلتے ہی دن گئے ریگ مشت کی مانند رہ گئے لوگ ہاتھ ملتے ہی سج کے آئی ہے آج شام غم بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی اس کے تیور بدلنے لگتے ہیں میرے حالات کے بدلتے ہی جانے کیسا تضاد ہے ہم میں گر پڑے تم مرے ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت ہے کسی بھی خواب کی تعبیر سے پہلے

    ضرورت ہے کسی بھی خواب کی تعبیر سے پہلے بنا لو ذہن میں نقشہ کوئی تعمیر سے پہلے ازل سے آشنا ہے دل ترے جلووں سے اے ہمدم تصور میں تری تصویر تھی تصویر سے پہلے بڑی کوشش کرے انسان حاصل کچھ نہیں ہوتا ملا ہے وقت سے پہلے نہ کچھ تقدیر سے پہلے نشیمن برق کی زد پر بنانا چاہتا ہوں میں تسلسل ہے ...

    مزید پڑھیے

    ساری دنیا کی نگاہوں میں تماشہ ہو گیا

    ساری دنیا کی نگاہوں میں تماشہ ہو گیا عشق تم سے کیا ہوا ہے میں تو رسوا ہو گیا سائے میں خوشیوں کے کتنے لوگ میرے ساتھ تھے دھوپ غم کی پھیلتے ہی میں اکیلا ہو گیا اب کسی سے خیر خواہی کی نہیں رکھنا امید آدمی ویسا نہیں تھا آج جیسا ہو گیا راز جتنے تھے سبھی سینے میں میرے دفن تھے دوستوں ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی جو کرتے رہیں گے مشاہدہ دل کا

    یوں ہی جو کرتے رہیں گے مشاہدہ دل کا چمک اٹھے گا کسی روز آئنہ دل کا ہماری راہ میں دیوار اٹھا کے دنیا نے قدم قدم پہ بڑھایا ہے حوصلہ دل کا مقام ایسا بھی آتا ہے راہ الفت میں قبول عقل بھی کرتی ہے مشورہ دل کا بھٹک نہ جائے کہیں دھڑکنوں کے جنگل میں دماغ ڈھونڈنے نکلا ہے راستہ دل کا یہ ...

    مزید پڑھیے

    بنجر زمیں تھی اور مکاں کوئی بھی نہ تھا

    بنجر زمیں تھی اور مکاں کوئی بھی نہ تھا میں اس جگہ بسا تھا جہاں کوئی بھی نہ تھا وحشت برس رہی تھی جہان خراب میں دل کو لبھا سکے وہ سماں کوئی بھی نہ تھا سب سے جدا ہوا تھا میں جس کے یقین پر ہو جائے گا جدا وہ گماں کوئی بھی نہ تھا تپتی ہوئی زمین پہ برسوں چلا ہوں میں لیکن مرے قدم کا نشاں ...

    مزید پڑھیے

    مٹی کا جسم اور صف معتبر میں ہے

    مٹی کا جسم اور صف معتبر میں ہے کتنا بڑا کمال کف کوزہ گر میں ہے ایسی ہوس چھپی ہوئی قلب بشر میں ہے گھر میں ہیں اور وسعت دنیا نظر میں ہے شوق سخن وری کو مٹاتا میں کس طرح یہ تو رچی بسی مرے قلب و جگر میں ہے مل جائے بے قرار کو لطف سکون دل ایسی تو بس مثال خدا ہی کے گھر میں ہے تم کو تمہاری ...

    مزید پڑھیے

    وہ سن نہ پائے تو صدا کیا ہے

    وہ سن نہ پائے تو صدا کیا ہے آہ و زاری سے فائدہ کیا ہے کوئی پوچھے تو عشق والوں سے درد کا دل سے واسطہ کیا ہے حق بیانی ملی ہے ورثے میں اتنی حیرت سے دیکھتا کیا ہے سارے اپنے ہوئے ہیں بیگانے ہم کو بیگانوں سے گلہ کیا ہے جھوٹ کی گرد صاف کر ڈالو سچ نہ بولے تو آئنہ کیا ہے تم ابھی یاد بھی ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے بے پردہ پری رو جو نکل جاتے ہیں

    گھر سے بے پردہ پری رو جو نکل جاتے ہیں دیکھنے والوں کے ایمان بدل جاتے ہیں آسماں کرتا ہے جو چشم عنایت اپنی رنگ پت جھڑ کے بہاروں میں بدل جاتے ہیں اپنی نظروں سے جو گرتے ہیں سنبھلتے ہی نہیں ٹھوکریں کھا کے تو رستے میں سنبھل جاتے ہیں امن کی شاخ پہ بیٹھے ہوئے پنچھی سارے شر پسندوں کی ...

    مزید پڑھیے