گھر سے بے پردہ پری رو جو نکل جاتے ہیں
گھر سے بے پردہ پری رو جو نکل جاتے ہیں
دیکھنے والوں کے ایمان بدل جاتے ہیں
آسماں کرتا ہے جو چشم عنایت اپنی
رنگ پت جھڑ کے بہاروں میں بدل جاتے ہیں
اپنی نظروں سے جو گرتے ہیں سنبھلتے ہی نہیں
ٹھوکریں کھا کے تو رستے میں سنبھل جاتے ہیں
امن کی شاخ پہ بیٹھے ہوئے پنچھی سارے
شر پسندوں کی شرارت سے دہل جاتے ہیں
زہر بھر دیتا ہے لہجے میں سلگتا موسم
گفتگو کرنے کے انداز بدل جاتے ہیں
گھیر لیتا ہے ہمیں ابر تری یادوں کا
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
حسرتیں خاک جو ہو جاتی ہیں اے شادؔ یہاں
پیٹ کی آگ میں ایمان بھی جل جاتے ہیں