ضرورت ہے کسی بھی خواب کی تعبیر سے پہلے
ضرورت ہے کسی بھی خواب کی تعبیر سے پہلے
بنا لو ذہن میں نقشہ کوئی تعمیر سے پہلے
ازل سے آشنا ہے دل ترے جلووں سے اے ہمدم
تصور میں تری تصویر تھی تصویر سے پہلے
بڑی کوشش کرے انسان حاصل کچھ نہیں ہوتا
ملا ہے وقت سے پہلے نہ کچھ تقدیر سے پہلے
نشیمن برق کی زد پر بنانا چاہتا ہوں میں
تسلسل ہے مرا قائم ہر اک تعمیر سے پہلے
نہ دو زحمت مرے محبوب نازک ہاتھ کو اپنے
میں زخمی ہوں ادائے ناز کی شمشیر سے پہلے
یہاں ڈوبی ہوئی تھی آدمیت گھپ اندھیروں میں
جہالت کا اندھیرا تھا تری تنویر سے پہلے
کسی کے نقش پا کو ہم بنا لیں رہنما اپنا
کوئی غالب نہ ہو پایا جناب میرؔ سے پہلے
زبان شادؔ پر آتا ہے تیرا نام اے خالق
ہر اک آغاز سے پہلے ہر اک تحریر سے پہلے