وہ سن نہ پائے تو صدا کیا ہے

وہ سن نہ پائے تو صدا کیا ہے
آہ و زاری سے فائدہ کیا ہے


کوئی پوچھے تو عشق والوں سے
درد کا دل سے واسطہ کیا ہے


حق بیانی ملی ہے ورثے میں
اتنی حیرت سے دیکھتا کیا ہے


سارے اپنے ہوئے ہیں بیگانے
ہم کو بیگانوں سے گلہ کیا ہے


جھوٹ کی گرد صاف کر ڈالو
سچ نہ بولے تو آئنہ کیا ہے


تم ابھی یاد بھی نہیں آئے
پھر یہ سینے میں درد سا کیا ہے


جان دے اس نے جان مانگی ہے
عشق میں اتنا سوچتا کیا ہے


کتنے برہم دکھائی دیتے ہیں
شادؔ نے آپ سے کہا کیا ہے