ساری دنیا کی نگاہوں میں تماشہ ہو گیا
ساری دنیا کی نگاہوں میں تماشہ ہو گیا
عشق تم سے کیا ہوا ہے میں تو رسوا ہو گیا
سائے میں خوشیوں کے کتنے لوگ میرے ساتھ تھے
دھوپ غم کی پھیلتے ہی میں اکیلا ہو گیا
اب کسی سے خیر خواہی کی نہیں رکھنا امید
آدمی ویسا نہیں تھا آج جیسا ہو گیا
راز جتنے تھے سبھی سینے میں میرے دفن تھے
دوستوں میں کس طرح پھر اس کا چرچا ہو گیا
سوچئے اس پر بھی جو فرصت ملے تو بیٹھ کر
کیا ہوا ویران کیوں گلشن ہمارا ہو گیا
ہو گیا مغرور اپنی لو پہ گھر کا ہر چراغ
روشنی کے پھیل جانے سے اندھیرا ہو گیا
نامۂ اعمال میرا شادؔ روشن کر گیا
ایک ہی قطرہ ندامت کا ستارہ ہو گیا