پتا تا زندگی پایا نہ خوشیوں کے ٹھکانے کا

پتا تا زندگی پایا نہ خوشیوں کے ٹھکانے کا
یہ جرمانہ لگا ہم پر کسی سے دل لگانے کا


ہمارے حوصلوں کی آسماں بھی داد دیتا ہے
طواف اب بھی کیا کرتی ہے بجلی آشیانے کا


مری آنکھوں میں اپنے گاؤں کے دل کش مناظر ہیں
ارادہ کر لیا ہے میں نے بھی گھر لوٹ جانے کا


غزل کا پیرہن میں ذہن کے سانچے میں بنتا ہوں
زمانہ معترف ہوتا ہے میرے تانے بانے کا


غموں کے وہ مناظر اک تبسم نے دکھائے ہیں
کیا نہ حوصلہ ہم نے دوبارہ مسکرانے کا


چلو خلوت کدے میں شادؔ صاحب شام ہوتی ہے
یہی تو وقت ہوتا ہے کسی کی یاد آنے کا