بنجر زمیں تھی اور مکاں کوئی بھی نہ تھا

بنجر زمیں تھی اور مکاں کوئی بھی نہ تھا
میں اس جگہ بسا تھا جہاں کوئی بھی نہ تھا


وحشت برس رہی تھی جہان خراب میں
دل کو لبھا سکے وہ سماں کوئی بھی نہ تھا


سب سے جدا ہوا تھا میں جس کے یقین پر
ہو جائے گا جدا وہ گماں کوئی بھی نہ تھا


تپتی ہوئی زمین پہ برسوں چلا ہوں میں
لیکن مرے قدم کا نشاں کوئی بھی نہ تھا


حد نگاہ شعلے اگلتی رہی زمیں
حیرت کی بات ہے کہ دھواں کوئی بھی نہ تھا


راہ وفا میں خرچ ہوئی شادؔ زندگی
پاس مفاد پاس زیاں کوئی بھی نہ تھا