یوں ہی جو کرتے رہیں گے مشاہدہ دل کا

یوں ہی جو کرتے رہیں گے مشاہدہ دل کا
چمک اٹھے گا کسی روز آئنہ دل کا


ہماری راہ میں دیوار اٹھا کے دنیا نے
قدم قدم پہ بڑھایا ہے حوصلہ دل کا


مقام ایسا بھی آتا ہے راہ الفت میں
قبول عقل بھی کرتی ہے مشورہ دل کا


بھٹک نہ جائے کہیں دھڑکنوں کے جنگل میں
دماغ ڈھونڈنے نکلا ہے راستہ دل کا


یہ ہچکیوں کا تسلسل بلا سبب تو نہیں
ضرور دل سے تمہارے ہے سلسلہ دل کا


بس اتنی بات پہ ہم نے شکست کر لی قبول
کسی نے دے دیا چپکے سے واسطہ دل کا


تم اپنے شادؔ سے ہرگز نہ بد گماں ہونا
کہ بد گمانی سے بڑھتا ہے فاصلہ دل کا