موسم گل نہ بہاروں کا سخن یاد آئے
موسم گل نہ بہاروں کا سخن یاد آئے مجھ کو اے ماہ ترے رخ کی پھبن یاد آئے سیر گلشن کے لیے وہ نہ کہیں نکلے ہوں کس لیے آج مجھے سرو و سمن یاد آئے جب شفق دیکھوں تو یاد آتے ہیں عارض اس کے چاند کو دیکھتے ہی اس کا بدن یاد آئے بجھ گیا دل بھی مرے گھر کے چراغوں کی طرح خاک ایسے میں کوئی غنچہ دہن ...