ہم سفر اب مرے پہلو میں مرا دل نہ رہا
ہم سفر اب مرے پہلو میں مرا دل نہ رہا
جس میں تو گرم سفر تھا وہی محمل نہ رہا
کس کی امید پہ لڑتا پھروں طوفانوں سے
منتظر اب مرا کوئی لب ساحل نہ رہا
جس پہ مر مر کے ہمیں ڈھنگ سے جینا آیا
کیا کریں اب سر مقتل وہی قاتل نہ رہا
اب خیالات کی محفل بھی نہیں سج پاتی
دل تنہا میں کوئی رونق محفل نہ رہا
جاں بہ لب یوں بھی مجھے ہجر نے کر ڈالا ہے
اے مری موت ترا کام بھی مشکل نہ رہا
آج کے دور میں اپنوں سے شکایت کیسی
ساتھ اپنا بھی وفا میں ہمیں حاصل نہ رہا
ناز و انداز میں ہے نخوت و پندار کی بو
شاید آئینہ کوئی اس کے مقابل نہ رہا
بے وفا کتنا وفادار رہا تیرا خیال
ایک لمحہ بھی مرے حال سے غافل نہ رہا
جو ترے حسن کا منکر تھا وہ مضمون کبھی
میرے افکار کے عنوان میں شامل نہ رہا
دھڑکنوں میں نہ کوئی کیف نہ ہلچل ہے مجیبؔ
طرز اول کی روش پر دل بسمل نہ رہا