جب تلک عشق کا افسانہ مکمل ہوگا
جب تلک عشق کا افسانہ مکمل ہوگا
ایک طوفان بپا ذہن میں ہر پل ہوگا
دل دھڑکنے کی صدا اتنی کہاں ہوتی ہے
پاس ہی شور مچاتا کوئی پاگل ہوگا
اتنا آسان نہیں دشت تمنا کا سفر
کہیں دریا تو کوئی راستہ دلدل ہوگا
تشنگی دشت کی صورت ہے لبوں پر بیٹھی
کب ترا ہاتھ مرے واسطے چھاگل ہوگا
منزل درد سے بھی ہوگا گزرنا تجھ کو
تب کہیں جا کے ترا آئنہ صیقل ہوگا
آخری سنگ مسافت ہے کہاں کیا معلوم
کیا خبر کب یہ سفر اپنا مکمل ہوگا
دل یہ کہتا ہے چلو دیکھ ہی آئیں چل کر
عقل کہتی ہے کہ دروازہ مقفل ہوگا
اس طرف کھل کے برستا ہے بہت ابر خیال
چند لمحوں میں علاقہ مرا جل تھل ہوگا
چاہتے ہی نہیں ابلیس سیاست کے مجیبؔ
مسئلہ کیسے تعصب کا یہاں حل ہوگا