ٹھٹھک گیا مہ نو جھیل میں اترتے ہوئے

ٹھٹھک گیا مہ نو جھیل میں اترتے ہوئے
تو ہم نے دیکھا ہے آب رواں ٹھہرتے ہوئے


قصیدہ گوئی خد و خال کی نظارے کریں
وہ آئنے سے کرے گفتگو سنورتے ہوئے


نہ ارد گرد کا کچھ ہوش تھا نہ خود اپنا
عجیب حال تھا خوشبو سے بات کرتے ہوئے


پھر اس کے بعد سمٹنے کی آرزو نہ رہی
کچھ ایسا لطف ملا ٹوٹتے بکھرتے ہوئے


میں اپنا حال چھپانے میں کامیاب رہا
نہ دیکھ پایا وہ آنکھوں میں اشک بھرتے ہوئے


زمیں پہ جس کی کوئی قدر تھی نہ عزت تھی
ملا تھا وادیٔ افلاک سے گزرتے ہوئے


زباں سے کچھ نہ کہا مسکرا کے دیکھ لیا
مجیبؔ سے جو کیا اک سوال ڈرتے ہوئے