موسم گل نہ بہاروں کا سخن یاد آئے
موسم گل نہ بہاروں کا سخن یاد آئے
مجھ کو اے ماہ ترے رخ کی پھبن یاد آئے
سیر گلشن کے لیے وہ نہ کہیں نکلے ہوں
کس لیے آج مجھے سرو و سمن یاد آئے
جب شفق دیکھوں تو یاد آتے ہیں عارض اس کے
چاند کو دیکھتے ہی اس کا بدن یاد آئے
بجھ گیا دل بھی مرے گھر کے چراغوں کی طرح
خاک ایسے میں کوئی غنچہ دہن یاد آئے
زندگی آئے جو پھولوں کا تبسم دیکھوں
خاک اڑتی ہوئی دیکھوں تو کفن یاد آئے
پھر ترا لوٹ کے جانے کا سماں یاد آیا
پھر مجھے سلسلۂ رنج و محن یاد آئے
جب کوئی روزن دیوار نظر سے گزرے
مجھ کو زندان تمنا کی کرن یاد آئے
تو مرے ساتھ ہے رکھتی ہے مرا اتنا خیال
اے غریب الوطنی کیسے وطن یاد آئے
جن سے وابستہ مرا دست تعلق تھا مجیبؔ
دشت میں بھرتے کلیلیں وہ ہرن یاد آئے