دیکھ تاریخ کے خزانے میں

دیکھ تاریخ کے خزانے میں
ہے مرا ذکر ہر زمانے میں


یوں بھی عمریں قلیل ہوتی ہیں
کیوں گنواتے ہو آزمانے میں


اس کی قسطیں چکانی پڑتی ہیں
کچھ نہیں لگتا دل لگانے میں


ایک لمحے میں کھو نہ دینا اسے
لگ گئی عمر جس کو پانے میں


ڈال دیں گے خلوص کی چادر
اور کیا ہے غریب خانے میں


غم نہ کیجے کہ ہم تو ہیں مشہور
جان کر بھی فریب کھانے میں


تھک گئے آگہی کے ہاتھ مجیبؔ
سنگ کو آئنہ بنانے میں