سنبھالتا ہے ترا دست معتبر مجھ کو

سنبھالتا ہے ترا دست معتبر مجھ کو
تو کس لیے ہو کوئی خوف یا خطر مجھ کو


بس ایک بار تری جستجو میں نکلا تھا
پھر اس کے بعد نہ اپنی ملی خبر مجھ کو


وہ اک مکان جو پرچھائیوں کا مسکن ہے
وہی بلاتا ہے مدت سے رات بھر مجھ کو


کھلا یہی کہ ہے وہ زرد موسموں کا نقیب
جو لگ رہا تھا بہاروں کا نامہ بر مجھ کو


نہ جانے کب سے کھڑا ہوں خرد کی سرحد پر
ہوائے کوئے جنوں آ شکار کر مجھ کو


کچھ انتظام نئے بال و پر کا ہو جائے
دگر جہان کا درپیش ہے سفر مجھ کو


سنوارنے میں لگا تھا میں جس کے شام و سحر
سمجھ رہا تھا وہی شخص بے ہنر مجھ کو


ہوائے صبح ہے یا ہے شمیم جاں افروز
جگانے آتا ہے کوئی دم سحر مجھ کو


یہ سوچتا ہوں کہ صحرا کو اپنا گھر کر لوں
کہ راس آ نہ سکے اپنے بام و در مجھ کو


نظر جھکا کے مجھے ڈھونڈ اپنے پیکر میں
تلاش کرتا ہے کیوں تو ادھر ادھر مجھ کو


مجھے تلاش تھی جس کی وہی ملا نہ مجیبؔ
قدم قدم پہ ملے یوں تو دیدہ ور مجھ کو