آندھیوں سے ہیں رابطے اس کے

آندھیوں سے ہیں رابطے اس کے
جل رہے ہیں سبھی دیے اس کے


خوشبوئیں کر رہی ہیں اس کا طواف
باغ سب ہیں ہرے بھرے اس کے


وہ سراپا ہے آفتاب جمال
کون ٹھہرے گا سامنے اس کے


مجھ سے پہچانتے ہیں لوگ اس کو
عکس میرے ہیں آئنے اس کے


میں کتاب اس کی زندگی کی ہوں
مجھ میں روشن ہیں حاشیے اس کے


شب کے زنداں میں قید ہے وہ مگر
ہیں اجالوں سے رابطے اس کے


اس کے ہر زاویے سے واقف ہوں
میں نے کھینچے ہیں زائچے اس کے


آج تک نام دے سکا نہ کوئی
ہیں تعلق عجب مرے اس کے