سردار پنچھی کی غزل

    صبح کانٹوں پہ شام کانٹوں پر

    صبح کانٹوں پہ شام کانٹوں پر عمر گزری تمام کانٹوں پر مرے اپنے قلم نے چپکے سے لکھ دیا میرا نام کانٹوں پر تیری کرنیں بھی رقص کرتی ہیں روز ماہ تمام کانٹوں پر رنگ اور بوئے گل کے عاشق سب کون بھیجے سلام کانٹوں پر روز شبنم سے غسل کرتے ہیں ہے گلوں کا حمام کانٹوں پر ابتدائے حیات ...

    مزید پڑھیے

    وہ حراست میں جو انسان لئے جاتے ہیں

    وہ حراست میں جو انسان لئے جاتے ہیں اپنی تفریح کا سامان لئے جاتے ہیں کل جسے گھر سے اٹھا لے گئی خاکی وردی آج ماں باپ اسے شمشان لئے جاتے ہیں بعد مٹھ بھیڑ کے تمغے یہ ترقی دیکھو مرنے والے ہی کا احسان لئے جاتے ہیں جسم چھلنی ہے مگر ہاتھ رہے سینے پر ہائے دل میں کوئی ارمان لئے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    دعا کیجے وہ برگد اور بھی پھولے پھلے برسوں

    دعا کیجے وہ برگد اور بھی پھولے پھلے برسوں کہ جس کی چھاؤں میں ہم آپ سے ملتے رہے برسوں کوئی جگنو بھٹکتا آ گیا تو آ گیا ورنہ چراغ قبر بن کر ہم اکیلے ہی جلے برسوں یہ سنگ میل بھی پہلے کوئی بھٹکا مسافر تھا جسے اپنی ہی منزل ڈھونڈنے میں لگ گئے برسوں یہ سر جو کاٹ کر ٹانگے گئے ہیں ان ...

    مزید پڑھیے

    سوچتے کیا ہیں چھلکتا جام لے کر

    سوچتے کیا ہیں چھلکتا جام لے کر پیجیے اس بے وفا کا نام لے کر آئے تھے تو ہاتھ خالی تھے ہمارے جا رہے ہیں سینکڑوں الزام لے کر اک دیا گھر میں جلایا تھا اسے بھی لے گیا کوئی تمہارا نام لے کر دھوپ آ سکتی تھی وہ آتی نہیں ہے کون آئے گا یہاں پیغام لے کر کاٹ لیں دربار نے سب کی زبانیں بلبلیں ...

    مزید پڑھیے

    تیری آواز پا پہ لگتے کان

    تیری آواز پا پہ لگتے کان خوب ہیں اس صدا پہ لگتے کان سوز نغمہ کا حظ اٹھاتے ہیں مطربہ کی نوا پہ لگتے کان شہد کی ہے مٹھاس اب ان میں خوب تیری صدا پہ لگتے کان میری فریاد غم کو کیا سنتے نغمۂ بے نوا پہ لگتے کان فیض دیدار دیکھ لے پنچھیؔ اب ہیں ان کی صدا پہ لگتے کان

    مزید پڑھیے

    تڑپنے کی اجازت جذبۂ بسمل سے ملتی ہے

    تڑپنے کی اجازت جذبۂ بسمل سے ملتی ہے جو دل مشتاق ہو تو پھر ذرا مشکل سے ملتی ہے وہ حق سچ کی عبارت پڑھنے سے محروم رہتے ہیں کہ جن کو روشنی کی لو رخ باطل سے ملتی ہے مجھے زندہ جلائے تجھ کو بھی زندہ ہی دفنائے مرے قاتل کی فطرت بھی ترے قاتل سے ملتی ہے چکوری دیکھ لے تو بھول جائے چاند کو ...

    مزید پڑھیے

    جو راہوں کے پتھر تھے کیا ہو گئے ہیں

    جو راہوں کے پتھر تھے کیا ہو گئے ہیں شوالوں میں جا کر خدا ہو گئے ہیں یہ کیسی ہوا چل رہی ہے چمن میں کہ شاخوں سے پتے جدا ہو گئے ہیں جو کل تک تھے قاتل وہ گنگا نہا کر سنا ہے کہ اب دیوتا ہو گئے ہیں وہ شاخیں بہائیں نہ کیوں خوں کے آنسو ہرے پتے جن سے جدا ہو گئے ہیں بتائے ہمیں باغباں کہ یہ ...

    مزید پڑھیے

    ہنسی ہنسی میں کوئی کھیل چل رہا ہوگا

    ہنسی ہنسی میں کوئی کھیل چل رہا ہوگا سڑک پہ پھر کوئی انسان جل رہا ہوگا بہت اداس ہیں حاکم اگر تو شہر مرا کسی فساد کے سانچے میں ڈھل رہا ہوگا جو گرم چھینٹے ہواؤں کے ساتھ آتے ہیں کسی کی آنکھ کا پانی ابل رہا ہوگا اندھیری رات میں ٹپکا تھا خون دل جس میں اسی چراغ سے سورج نکل رہا ...

    مزید پڑھیے

    بات کہہ کر ہنسا گیا مجھ کو

    بات کہہ کر ہنسا گیا مجھ کو اک تماشا بنا گیا مجھ کو اب تو میں بھی ہوں پان کا پتا ایسا چونا لگا گیا مجھ کو مجھ کو پہلے بنایا پتلی پھر انگلیوں پر نچا گیا مجھ کو جو کسی سمت بھی نہیں جاتا ایسا رستہ دکھا گیا مجھ کو لے کے میرے قلم کا اک بوسہ میرؔ میراؔ بنا گیا مجھ کو زخم پھولوں کی شکل ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے جسم کو چھو کر مہک اٹھی صبا کوئی

    تمہارے جسم کو چھو کر مہک اٹھی صبا کوئی چلا خوشبو سے خوشبو کا برابر سلسلہ کوئی بہت مایوس لوٹی ہے چمن سے پھر ہوا کوئی غزل کے کہنے والے کہہ رہے ہیں مرثیہ کوئی خزاں کے دور میں گلشن کو کیا محسوس ہوتا ہے یہ نازک بات سمجھے گا بھی کیسے بے وفا کوئی یہ ہم جانیں ہماری ناؤ جانے یا بھنور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3