سوچتے کیا ہیں چھلکتا جام لے کر

سوچتے کیا ہیں چھلکتا جام لے کر
پیجیے اس بے وفا کا نام لے کر


آئے تھے تو ہاتھ خالی تھے ہمارے
جا رہے ہیں سینکڑوں الزام لے کر


اک دیا گھر میں جلایا تھا اسے بھی
لے گیا کوئی تمہارا نام لے کر


دھوپ آ سکتی تھی وہ آتی نہیں ہے
کون آئے گا یہاں پیغام لے کر


کاٹ لیں دربار نے سب کی زبانیں
بلبلیں خاموش ہیں انعام لے کر


کون سی گنگا نہایا ہے یہ سورج
جب بھی آیا ہے تو قتل عام لے کر


اب نہیں کوئی ضرورت ہم سفر کی
چل پڑا ہوں گردش ایام لے کر


آشیاں ہوتا تو ہوتا لوٹنا بھی
کیا کرے پنچھیؔ اودھ کی شام لے کر