تمہارے جسم کو چھو کر مہک اٹھی صبا کوئی
تمہارے جسم کو چھو کر مہک اٹھی صبا کوئی
چلا خوشبو سے خوشبو کا برابر سلسلہ کوئی
بہت مایوس لوٹی ہے چمن سے پھر ہوا کوئی
غزل کے کہنے والے کہہ رہے ہیں مرثیہ کوئی
خزاں کے دور میں گلشن کو کیا محسوس ہوتا ہے
یہ نازک بات سمجھے گا بھی کیسے بے وفا کوئی
یہ ہم جانیں ہماری ناؤ جانے یا بھنور جانے
ہماری کشمکش میں اب نہ آئے نا خدا کوئی
ہمیں نے جان دی جس بانکپن سے جس قرینے سے
یہ حسرت رہ گئی مقتل میں آ کر دیکھتا کوئی
سن اے پت جھڑ زمانہ لگ گیا تیری حکومت کا
گلوں کو اب نہیں منظور تیرا فیصلہ کوئی
نہ جانے کیوں دھوئیں کی اک لکیر اٹھتی ہے اس گھر سے
کہیں ملبے کے نیچے دب گیا جلتا دیا کوئی
ابھی تک اس زمیں کے آدھے سر میں درد باقی ہے
ارے چارہ گرو چھوڑو دعا کر لو دوا کوئی
تمہاری جستجو میں چھوڑ دی تھی ہم نے جنت بھی
وگرنہ اس زمیں پر کیسے ہوتا حادثہ کوئی
ارادوں میں ذرا بجلی جگا کے دیکھ اے پنچھیؔ
اسی پنجرے سے نکلے گا چمن کا راستہ کوئی