ہنسی ہنسی میں کوئی کھیل چل رہا ہوگا

ہنسی ہنسی میں کوئی کھیل چل رہا ہوگا
سڑک پہ پھر کوئی انسان جل رہا ہوگا


بہت اداس ہیں حاکم اگر تو شہر مرا
کسی فساد کے سانچے میں ڈھل رہا ہوگا


جو گرم چھینٹے ہواؤں کے ساتھ آتے ہیں
کسی کی آنکھ کا پانی ابل رہا ہوگا


اندھیری رات میں ٹپکا تھا خون دل جس میں
اسی چراغ سے سورج نکل رہا ہوگا


کنواری لاش کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو
حسین خواب ابھی تک مچل رہا ہوگا


وہیں وہیں پہ چلیں گے یہ تیز خنجر بھی
جہاں جہاں ترا اخبار چل رہا ہوگا


بدل رہی ہے قفس میں ہوا اگر پنچھیؔ
تو مقتلوں میں بھی موسم بدل رہا ہوگا