وہ حراست میں جو انسان لئے جاتے ہیں

وہ حراست میں جو انسان لئے جاتے ہیں
اپنی تفریح کا سامان لئے جاتے ہیں


کل جسے گھر سے اٹھا لے گئی خاکی وردی
آج ماں باپ اسے شمشان لئے جاتے ہیں


بعد مٹھ بھیڑ کے تمغے یہ ترقی دیکھو
مرنے والے ہی کا احسان لئے جاتے ہیں


جسم چھلنی ہے مگر ہاتھ رہے سینے پر
ہائے دل میں کوئی ارمان لئے جاتے ہیں


کیا پتہ ان کو کتابیں ہیں کہ وش کی پڑیاں
بھر کے بستے میں جو نادان لئے جاتے ہیں


یہ بھجن گانے میں ہی مست کئے بند آنکھیں
اور گھر لوٹ کے مہمان لئے جاتے ہیں


ایک معصوم کا سر کاٹ کے پھر دیوی سے
اپنی خوشحالی کے وردان لئے جاتے ہیں


نیم بے ہوش ہے گھائل ہے قفس میں پنچھیؔ
اور پر نوچ کے شیطان لئے جاتے ہیں