سنجو شبدتا کی غزل

    عیب اوروں میں گن رہا ہے وہ

    عیب اوروں میں گن رہا ہے وہ اس کو لگتا ہے یوں خدا ہے وہ میری تدبیر کو کنارے رکھ میری تقدیر لکھ رہا ہے وہ میں نے مانگا تھا اس سے حق اپنا بس اسی بات پر خفا ہے وہ پتھروں کے شہر میں زندہ ہے لوگ کہتے ہیں آئنہ ہے وہ اس کی وہ خامشی بتاتی ہے میرے دشمن سے جا ملا ہے وہ

    مزید پڑھیے

    زندگی کا جمال دیکھا بھی

    زندگی کا جمال دیکھا بھی موت کا مرم خوب سمجھا بھی بچپنا تو ابھی گیا بھی نہ تھا جانے کب آ گیا بڑھاپا بھی جب تلک زندگی سمجھتے ہم موت کا آ گیا بلاوا بھی شبد کچھ رہ گئے ہیں من میں ہی کچھ کو اوراق پر اتارا بھی عمر سستے میں خرچ کر ڈالی ہاتھ آیا نہیں خسارہ بھی

    مزید پڑھیے

    یوں تو دنیا بھی مجھے راس کہاں آئی ہے

    یوں تو دنیا بھی مجھے راس کہاں آئی ہے بزم میں آتے ہی لگتا ہے کہ تنہائی ہے سچ تو یہ ہے کہ مجھے راس نہیں آتا کچھ میری عادت سے مری زندگی اکتائی ہے ذہن میں نام نہیں چہرہ نہیں ہے کوئی آج اک روح کو اک روح کی یاد آئی ہے وہ ملاقات مری جان کچھ اک پل کی سہی اس کی تصویر بڑے فریم میں بنوائی ...

    مزید پڑھیے

    خود سے کچھ یوں ابھر رہے ہیں ہم

    خود سے کچھ یوں ابھر رہے ہیں ہم اک بھنور میں اتر رہے ہیں ہم زندگی کون جی رہا ہے یہاں موت میں جان بھر رہے ہیں ہم موت کے بعد زندگی ہوگی یہ سمجھ کر ہی مر رہے ہیں ہم اب سنورنے کا لطف جاتا رہا آئنے میں بکھر رہے ہیں ہم عشق پہلے بھی تو ہوا ہے ہمیں کیا نیا ہے جو ڈر رہے ہیں ہم وقت اپنی جگہ ...

    مزید پڑھیے

    بد گماں آج ساری محفل ہے

    بد گماں آج ساری محفل ہے جانے کس راہ کس کی منزل ہے حال دل ہم بیاں کریں کیسے شہر کا مسئلہ مقابل ہے عمر بیتی ہے میری صحرا میں دور تک دریا ہے نہ ساحل ہے ساتھ چلنا ہے ان کی مجبوری دو کناروں کی ایک منزل ہے وہ مری غزلوں کا ہی ہے حصہ وہ کہاں زندگی میں شامل ہے دل مری ایک بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اداسی کی یہ عادت ہی کہاں تھی

    اداسی کی یہ عادت ہی کہاں تھی ہمیں اس کی سہولت ہی کہاں تھی تمہیں جانا ہی تھا تو در کھلا تھا بہانوں کی ضرورت ہی کہاں تھی ذرا ہم بیٹھتے کچھ بات کرتے تمہیں اتنی سی فرصت ہی کہاں تھی سنو ان دوریوں کا اب گلہ کیا ہمارے بیچ قربت ہی کہاں تھی مقابل وقت سے جب جیتنا تھا ہمیں اس وقت ہمت ہی ...

    مزید پڑھیے

    دن کئی دن چھپا رہا جیسے

    دن کئی دن چھپا رہا جیسے کوئی اس کو ستا رہا جیسے صبح سورج کو نیند آنے لگی ابر چادر اڑھا رہا جیسے ایک آہٹ سی لگ رہی مجھ کو کوئی پیچھے سے آ رہا جیسے ہم مسافر ہیں ایک جنگل میں خوف رستہ دکھا رہا جیسے الجھا الجھا سا ایک چہرہ ہی سو فسانے سنا رہا جیسے قافلہ میرا بڑھ گیا آگے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    ابر نے چاند کی حفاظت کی

    ابر نے چاند کی حفاظت کی چاند نے خود بھی خوب ہمت کی آج دریا بہت اداس لگا ایک کترے نے پھر بغاوت کی وہ پرندہ ہوا کو چھیڑ گیا اس نے کیا خوب یہ حماقت کی وقت منصف ہے فیصلہ دے گا اب ضرورت بھی کیا عدالت کی دھوپ کا دم نکل گیا آخر چھاؤں ہونے لگی ہے شدت کی

    مزید پڑھیے

    ہماری بات انہیں اتنی ناگوار لگی

    ہماری بات انہیں اتنی ناگوار لگی گلوں کی بات چھڑی اور ان کو خار لگی بہت سنبھال کے ہم نے رکھے تھے پاؤں مگر جہاں تھے زخم وہیں چوٹ بار بار لگی قدم قدم پہ ہدایت ملی سفر میں ہمیں قدم قدم پہ ہمیں زندگی ادھار لگی نہیں تھی قدر کبھی میری حسرتوں کی اسے یہ اور بات کہ اب وہ بھی بے قرار ...

    مزید پڑھیے

    اک اس کے در کے سوا اور میں کدھر جاتی

    اک اس کے در کے سوا اور میں کدھر جاتی اسے پکارتے یہ زندگی گزر جاتی مجھے لگا تھا وہ میرے بغیر مر جاتا اسے لگا تھا میں اس کے بغیر مر جاتی مجھے تو عشق بھی پیارا تھا اور دنیا بھی جدا تھے راستے دونوں کے میں کدھر جاتی ہزاروں عیب ہیں مجھ میں مگر سنو تو سہی تمہارے پیار کی شدت میں میں ...

    مزید پڑھیے