اداسی کی یہ عادت ہی کہاں تھی

اداسی کی یہ عادت ہی کہاں تھی
ہمیں اس کی سہولت ہی کہاں تھی


تمہیں جانا ہی تھا تو در کھلا تھا
بہانوں کی ضرورت ہی کہاں تھی


ذرا ہم بیٹھتے کچھ بات کرتے
تمہیں اتنی سی فرصت ہی کہاں تھی


سنو ان دوریوں کا اب گلہ کیا
ہمارے بیچ قربت ہی کہاں تھی


مقابل وقت سے جب جیتنا تھا
ہمیں اس وقت ہمت ہی کہاں تھی