دن کئی دن چھپا رہا جیسے
دن کئی دن چھپا رہا جیسے
کوئی اس کو ستا رہا جیسے
صبح سورج کو نیند آنے لگی
ابر چادر اڑھا رہا جیسے
ایک آہٹ سی لگ رہی مجھ کو
کوئی پیچھے سے آ رہا جیسے
ہم مسافر ہیں ایک جنگل میں
خوف رستہ دکھا رہا جیسے
الجھا الجھا سا ایک چہرہ ہی
سو فسانے سنا رہا جیسے
قافلہ میرا بڑھ گیا آگے
مجھ کو ماضی بلا رہا جیسے