بد گماں آج ساری محفل ہے

بد گماں آج ساری محفل ہے
جانے کس راہ کس کی منزل ہے


حال دل ہم بیاں کریں کیسے
شہر کا مسئلہ مقابل ہے


عمر بیتی ہے میری صحرا میں
دور تک دریا ہے نہ ساحل ہے


ساتھ چلنا ہے ان کی مجبوری
دو کناروں کی ایک منزل ہے


وہ مری غزلوں کا ہی ہے حصہ
وہ کہاں زندگی میں شامل ہے


دل مری ایک بھی نہیں سنتا
کیسا گستاخ یہ مرا دل ہے