خود سے کچھ یوں ابھر رہے ہیں ہم

خود سے کچھ یوں ابھر رہے ہیں ہم
اک بھنور میں اتر رہے ہیں ہم


زندگی کون جی رہا ہے یہاں
موت میں جان بھر رہے ہیں ہم


موت کے بعد زندگی ہوگی
یہ سمجھ کر ہی مر رہے ہیں ہم


اب سنورنے کا لطف جاتا رہا
آئنے میں بکھر رہے ہیں ہم


عشق پہلے بھی تو ہوا ہے ہمیں
کیا نیا ہے جو ڈر رہے ہیں ہم


وقت اپنی جگہ پے قائم ہے
بس مسلسل گزر رہے ہیں ہم