ہماری بات انہیں اتنی ناگوار لگی
ہماری بات انہیں اتنی ناگوار لگی
گلوں کی بات چھڑی اور ان کو خار لگی
بہت سنبھال کے ہم نے رکھے تھے پاؤں مگر
جہاں تھے زخم وہیں چوٹ بار بار لگی
قدم قدم پہ ہدایت ملی سفر میں ہمیں
قدم قدم پہ ہمیں زندگی ادھار لگی
نہیں تھی قدر کبھی میری حسرتوں کی اسے
یہ اور بات کہ اب وہ بھی بے قرار لگی
مدد کا ہاتھ نہیں ایک بھی بڑھا تھا مگر
عجیب دور کہ بس بھیڑ بے شمار لگی