اک اس کے در کے سوا اور میں کدھر جاتی

اک اس کے در کے سوا اور میں کدھر جاتی
اسے پکارتے یہ زندگی گزر جاتی


مجھے لگا تھا وہ میرے بغیر مر جاتا
اسے لگا تھا میں اس کے بغیر مر جاتی


مجھے تو عشق بھی پیارا تھا اور دنیا بھی
جدا تھے راستے دونوں کے میں کدھر جاتی


ہزاروں عیب ہیں مجھ میں مگر سنو تو سہی
تمہارے پیار کی شدت میں میں سنور جاتی


یہ مجھ کو زہر پلانے کی کیا ضرورت تھی
تمہارے کہنے سے ہی جان میں تو مر جاتی


سفر طویل تھا رستے میں سب اترتے رہے
وہ شہر آیا نہیں میں جہاں اتر جاتی