سوالوں کی زنجیر
بول اے میری کتاب تیرا چہرہ چومتا ہوں تیرے ماتھے کے سکوں میں ڈھونڈھتا ہوں آج پھر قسمت کا نقش کھولتا ہوں کانپتے ہاتھوں سے صحراؤں کا دروازہ پرانا جن کی اجلی ریت میں اگتے ہوئے موتی ہزاروں چاند تارے آفتاب مدتوں سے ایک لمحے کے سکوں میں کھو گئے ٹھہرے ہوئے ہیں ایک انگلی کے اشارے کے ...