Saleem-ur-Rahman

سلیم الرحمن

سلیم الرحمن کی نظم

    سوالوں کی زنجیر

    بول اے میری کتاب تیرا چہرہ چومتا ہوں تیرے ماتھے کے سکوں میں ڈھونڈھتا ہوں آج پھر قسمت کا نقش کھولتا ہوں کانپتے ہاتھوں سے صحراؤں کا دروازہ پرانا جن کی اجلی ریت میں اگتے ہوئے موتی ہزاروں چاند تارے آفتاب مدتوں سے ایک لمحے کے سکوں میں کھو گئے ٹھہرے ہوئے ہیں ایک انگلی کے اشارے کے ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کا بدن

    فرش بکھرا ہوا اس کا لباس رات کی ہر ایک کروٹ اس کی بانہوں چھاتیوں اس کی کمر کی سلوٹوں میں اب بھی جیتی جاگتی ہے سرسراتی سانس لیتی ہے یہاں ایک پاگل سرخ خوشبو کا لباس میری تنہائی کو پھر سے ڈھانپتا ہے

    مزید پڑھیے

    خواہش کا شور

    میں اس نگر کی تلاش میں ہوں جہاں پہ ہر شام چاند کی گود سے فضاؤں میں پھول اتریں ڈگر ڈگر کی اداس خوشبو دلوں کو میٹھا سا درد بخشے نشے میں کھوئی سی مست سانسوں میں خواہشوں کا اداس دھیما سا شور آنکھوں میں آرزو کی کتھا کہانی لرزتے آنسو خموش معصوم دھڑکنوں کی زبان کھولیں بہار سے آنچلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    خوف

    اس گھر کی سب سے اوپر کی منزل میں رہنے والی لڑکی مجھ کو سارا دن اپنی حیران آنکھوں سے تکتی رہتی ہے رات کو اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے لمبے لمبے ناخنوں والی ایک چڑیل نکلتی ہے جو چیخ چیخ کر ہنستی ہے اور میری جانب بڑھتی ہے

    مزید پڑھیے

    چیخ

    کبھی وہ صدا گنگناتی سبک رو ہواؤں کی آہٹ تھی دھیرے سے گرتی ہوئی نیند سے چور پلکوں کی لرزش تھی گنگ اور نیلی فضاؤں میں اڑتے ہوئے ایک پنچھی کی مستی بھری پھڑ پھڑاہٹ کا نغمہ کلی کے چٹکنے کی آواز تھی اب وہی اک صدا گونجتے گونجتے باؤلی رات کی چیخ میں ہے ہواؤں کی روتی ہوئی بانسری بادلوں کی ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کا لباس

    ہر طرف بکھرا ہوا اس کا بدن رات کی ہر ایک کروٹ اس کی بانہوں، چھاتیوں اس کی کمر کی سلوٹوں میں اب بھی جیتی جاگتی ہے سرسراتی، سانس لیتی ہے یہاں اور ایک پاگل سرخ خوشبو کا لباس میری تنہائی کو پھر سے ڈھانپتا ہے

    مزید پڑھیے

    اس کے بعد

    پرانے گھر میں کوئی رہے کیا ہر ایک شے سے تمہاری بانہیں لپٹ رہی ہیں فضا میں اب تک تمہارے ملبوس اور بدن کی نشیلی خوشبو رچی ہوئی ہے ہر ایک گوشے میں ہلکی ہلکی تمہاری آواز تیرتی ہے خموش ویران آئینے میں تمہاری آنکھیں ہر آنے والے کو روکتی ہیں اداس گھر میں جو کوئی آئے تمہارے سانسوں کا شور ...

    مزید پڑھیے

    مصور

    لکیریں زندگی کی الجھنیں بھی ہیں لکیریں مست دھارے کا سکوں بھی ہیں لکیریں بھاگتے اور شور کرتے دن کا ہنگامہ لکیریں ریتیلے ساحل کی بھیگی رات کی ناگن کا سایہ بھی کبھی رنگوں کی آوازوں میں ہے اونچی منڈیروں کے عقب سے جھانکنے والے سنہرے چاند کا نغمہ نئی رت کونپلوں اور پتیوں پھولوں کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2