Saleem-ur-Rahman

سلیم الرحمن

سلیم الرحمن کی نظم

    پا بہ گل

    اک بھکاری کی مانند اک پیڑ ویران سے راستے پر کھڑا ہے کوئی بھولا بھٹکا مسافر جو گزرے کبھی ایک پل کو رکے نرم چھانو میں دم لے ذرا اور چلتا بنے رہ گزر پر وہ بے آسرا پیڑ چپ چاپ تکتا رہے اپنے دامن کو پھیلائے ہر جانے والے مسافر کو شاخیں پکاریں مگر کون آئے

    مزید پڑھیے

    آوارہ

    کوئی یاد ایسی نہیں جو مجھے راہ چلتے ہوئے روک لے میرا دامن پکڑے مرے پاؤں میں ایک زنجیر سی ڈال دے کوئی بھی ایسا بیتا ہوا پل نہیں مست جھونکے کے مانند جو گنگناتا ہوا دور سے آئے ویران آنکھوں سے لپٹے کسی بھولی بسری ہوئی بات کا گیت گائے مرے سامنے ایک پھیلا ہوا جال ہے راستوں کا قطاریں ...

    مزید پڑھیے

    ایک لڑکی

    من کی چھوٹی سی دنیا میں آشاؤں کا ایک میلا سا ہے اس کی نس نس میں اک آگ سی کروٹیں لے رہی ہے خیالوں میں سپنے سنہرے بسے ہیں ذرا کوئی اس سے پر اتنا تو کہہ دے کہ اے شوخ لڑکی تیرے بالوں میں گجرے کی خوشبو بڑی مست میٹھی سی ہے تیرے ہونٹوں پہ امرت کی دھاریں ہیں تو اپنی آنکھوں میں کاجل سجائے ...

    مزید پڑھیے

    شہر اور زنجیر

    درد کی رات پھر آ گئی میرے پاؤں کی زنجیر پھر جانے مجھ کو کہاں لے چلے گی کبھی شہر کی نیم روشن سی ویران گلیاں خمیدہ سی دیوار کے سائے سائے میں پاؤں میں کنکر چبھوتا چلوں گا کبھی چوڑی چکی سی بل کھاتی سڑکوں کی ہنستی ہوئی رونقوں میں سلگتی ہوئی خوشبوؤں کی جنوں خیز لہروں کے ریلے میں بے بس ...

    مزید پڑھیے

    گیا سال

    گیا سال جاتے ہوئے میری دہلیز پر راکھ کا ڈھیر جھلسے ہوئے جسم ٹوٹے ہوئے عضو ستمبر کی بربادیوں پہ لکھے مرثیوں اور اخبار کی سرخیوں میں تراشوں میں لپٹی ہوئی زرد معصوم لاشیں ٹھٹھرتے ہوئے سرد سورج کی پہلی کرن میں بندھی ورلڈ آرڈر کی مٹتی ہوئی دستاویزوں کے انبار کو چھوڑ کر جا چکا ہے

    مزید پڑھیے

    شام

    شام ہے لمبی گلیوں میں اونچے مکانوں کی دیوار پر پھیلتے سائے ہیں دور افق پر سیہ رنگ بادل کے پیچھے سلگتی ہوئی دھوپ ہے ایسے ہی تیرے جیون کا ڈھلتا ہوا روپ ہے اس ہوا میں ترے درد کا گیت ہے ان درختوں کے گرتے ہوئے آنسوؤں میں کسی اور کا غم نہیں ایک تیرے سوا کوئی ماتم نہیں ایک لمحے میں یہ ...

    مزید پڑھیے

    امید

    یہاں سے آگے اداس جنگل کا راستہ ہے یہاں سے تم لوٹ جاؤ پلٹ کے دیکھو وہ جاگتا شہر رنگ میں تیرتے ہوئے کھڑکیوں کے شیشے نشے میں ڈوبی ہوئی صدائیں خوشی سے بھرپور قہقہے وہاں منڈیروں پہ چاند پونم کا اپنی ٹھوڑی ٹکائے شفقت سے ہنس رہا ہے تم اس اندھیرے اداس رستے پہ کیوں میرے ساتھ آ رہی ہو میں ...

    مزید پڑھیے

    خواب کا درخت

    تجھے لوٹا رہا ہوں زندگی کا ذرہ ذرہ عمر کی شاخوں سے جھڑتے پھول سوکھے ہاتھ مرجھائی رگیں مدتوں سے میں نے تیرے آتے جاتے موسموں کے رنگ پہنے بادلوں کا رس پیا روشن ہوائیں جسم نہلاتی رہیں میرے خوابوں کی جڑوں کا تیرے ٹھنڈے زرد سینے سے کوئی رشتہ نہ تھا

    مزید پڑھیے

    سانس کی لکیریں

    یہ ہوا کا کھیل ہے میں بھی نہیں تو بھی نہیں ہے شام کے رستے پہ اڑتی دھول کے خاکے ہیں ہم سانس الجھی سی لکیریں رنگ آوازوں کے دیواروں پہ مٹی کے پرانے نقش ہیں سرد سہ پہروں میں جلدی جلدی چلتی دھوپ کی طرح رواں ہیں ہونٹ اور یہ ہاتھ سارے بے نشاں ہیں شام کی دہلیز سے آگے پرانا سا کوئی گھر ...

    مزید پڑھیے

    بیمار لڑکی

    شام کی گنگناتی ہواؤ مجھے ساتھ اپنے اڑاتے ہوئے لے چلو وہ جہاں اونچے اونچے درختوں کی غم ناک سی چھانو ہے چاند تاروں کے رستوں سے آگے مرا گاؤں ہے میرا گھر سونا گھر اپنے بازو بڑھائے مرا راستہ تک رہا ہے کوئی اجنبی سی صدا میرے کانوں میں آتی ہے مجھ کو بلاتی ہے جانے کہاں اونچے اونچے درختوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2