مصور

لکیریں زندگی کی الجھنیں بھی ہیں
لکیریں مست دھارے کا سکوں بھی ہیں
لکیریں بھاگتے اور شور کرتے دن کا ہنگامہ
لکیریں ریتیلے ساحل کی بھیگی رات کی ناگن کا سایہ بھی
کبھی رنگوں کی آوازوں میں ہے
اونچی منڈیروں کے عقب سے جھانکنے والے سنہرے چاند کا نغمہ
نئی رت کونپلوں اور پتیوں پھولوں کی خوشبوئیں
کبھی رنگوں کی آوازیں
درختوں کے سلگتے آنسوؤں کا درد مدھم سا
کہیں تاروں کی مالائیں لیے آکاش کی مغموم سی دیوی
کبھی یہ رنگ
میرے ذہن کی بھٹی کے کندن سے دمکتے سرخ انگارے
کبھی روتی ہوئی اس زندگی کے درد کا ماتم
کہیں ان آنسوؤں میں قبر سی گلیوں کا سناٹا
کہیں کہرے میں کفنائی ہوئی شمعیں گزرتی ہیں