سوالوں کی زنجیر

بول اے میری کتاب
تیرا چہرہ چومتا ہوں
تیرے ماتھے کے سکوں میں ڈھونڈھتا ہوں آج پھر قسمت کا نقش
کھولتا ہوں کانپتے ہاتھوں سے صحراؤں کا دروازہ پرانا
جن کی اجلی ریت میں اگتے ہوئے موتی
ہزاروں چاند تارے آفتاب
مدتوں سے ایک لمحے کے سکوں میں کھو گئے
ٹھہرے ہوئے ہیں
ایک انگلی کے اشارے کے لئے
میں مگر اس سانس کی زنجیر میں ہوں
موت کی مٹی مرا یہ جسم میں اس کی سزا
کون سے لفظوں پہ رکھوں ہاتھ
جس سے صبح کی تحریر روشن ہو مری آنکھیں کھلیں
خوشبو ملے مجھ کو ہوا کی جو پرانے غار میں پیدا ہوئی
کس طرح گزرے یہ میرے دکھ کے موسم کا عذاب
بول اے میری کتاب