سلیم انصاری کی نظم

    یہ وقت کیا ہے

    یہ وقت کیا ہے کہ اپنے معمول سے گریزاں ہر ایک شے ہے ہر ایک لمحہ گزشتہ لمحات کی نفی ہے عجیب وہم و یقین کا امتزاج سوچوں میں گھل گیا ہے جو خواب دیکھو تو زندگی پر یقین آئے دیے بجھا دو تو روشنی پر یقین آئے سراب دریا ہے اور ریگ رواں سمندر بدن پہ زخموں کا جال ہے جگنوؤں سے لکھی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    تعبیر

    کوئی ہے بھی کہاں اس شہر میں جو میرے خوابوں کی سہی تعبیر بتلائے کہ میں نے اپنے سارے خواب آنکھوں کی بجائے دل سے دیکھے ہیں

    مزید پڑھیے

    خواہش کا عذاب

    اور پھر ایک دن جسم میں چیختی خواہشیں بے صدا ہو گئیں جب درختوں سے لٹکے ہوئے خوف کے سانپ زہر ناکامیوں کا اگلنے لگے گاؤں کی سونی پگڈنڈی کے موڑ پر حوصلوں کو مرے کچھ ملی روشنی پھر اچانک اندھیرے کی جھاڑی سے نکلی ہوئی سرسراہٹ نے پگھلا دئے خواہشوں کے سلگتے بدن

    مزید پڑھیے

    نیا سقراط

    میں بھی اس عہد کا ایک سقراط ہوں روز پیتا ہوں زہراب تنہائی کا صبح سے شام تک خود سے ملنے کی کوشش میں رہتا ہوں میں اور شاید یہی اک سبب ہے جو تنہا ہوں میں مطمئن ہوں کہ میں اس نئے عہد کا ایک سقراط ہوں روز پیتا ہوں زہراب تنہائی کا اور زندہ ہوں میں

    مزید پڑھیے

    لا حاصل

    وہ تتلیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ایک دن اپنے ماں باپ سے بچھڑ گیا

    مزید پڑھیے

    ایک ضروری نظم

    میری نظموں کے سادہ لوح قاری تمہیں کیا علم میں برسوں سے اپنی سوچ کے جنگل میں تم کو بے سبب بھٹکا رہا ہوں بظاہر تم کو لگتا ہے کہ میری ساری نظمیں درد کے تاریک جنگل میں تمہاری ہم سفر ہیں مگر یہ سچ نہیں ہے مری نظموں کے سارے لفظ کاذب ہیں مرے لہجے کا سارا کرب جھوٹا ہے مری نظمیں تو میرے ذہن ...

    مزید پڑھیے

    کس سے پوچھوں

    کس سے پوچھوں جب بھی کوئی نظم مکمل ہو جاتی ہے میرے اندر ایک خلا کیوں بھر جاتا ہے کیوں مجھ کو ایسا لگتا ہے جیسے میرے خواب کسی نے چھین لیے ہیں زخموں کے مہتاب کسی نے چھین لیے ہیں کس سے پوچھوں نظم مکمل ہوتے ہی کیوں بے چہرہ یادوں کے پنچھی درد کے موسم میرے بدن سے کیوں ہجرت کرنے لگتے ...

    مزید پڑھیے

    میں زخموں کو پھر سے کریدوں

    بہت دن سے وہ یاد آیا نہیں ہے بہت دن سے میں نے اداسی کو اپنے خیالوں کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں میں سجایا نہیں ہے بہت دن سے کمرے میں گہری گھنی تیرگی ہے مگر اب بدن کو نئے خواب آنے لگے ہیں کتابوں میں سوکھے ہوئے پھول پھر مسکرانے لگے ہیں مگر ان میں خوشبو نئی ہے مجھے یاد ہے تم نے جو پھول مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    لکیریں چپ نہیں رہتیں

    لکیریں بولتی ہیں ہتھیلی پر مہکتے ہونٹ جب لکھتے ہیں لمحوں کی کہانی لکیریں ٹوٹ کر لفظوں کی شکلیں اوڑھ لیتی ہیں

    مزید پڑھیے

    بے چہرہ آدمی

    وہ اپنی گردن پہ میرا چہرہ لگا کے خوش ہے مگر اسے کچھ خبر نہیں ہے کہ جب رگوں سے رگیں نہ مل پائیں گی تو کیسے ان میں لہو بنے گا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2