میں زخموں کو پھر سے کریدوں

بہت دن سے
وہ یاد آیا نہیں ہے
بہت دن سے میں نے
اداسی کو اپنے خیالوں کی
ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں میں سجایا نہیں ہے
بہت دن سے
کمرے میں گہری گھنی تیرگی ہے
مگر اب
بدن کو نئے خواب آنے لگے ہیں
کتابوں میں سوکھے ہوئے پھول پھر مسکرانے لگے ہیں
مگر ان میں خوشبو نئی ہے
مجھے یاد ہے
تم نے جو پھول مجھ کو دئے تھے
تمہاری ہی خوشبو تھی ان میں
مجھے خود ہی حیرت ہے کیسے
دریچے سے باہر کا منظر بدلنے لگا ہے
پرندے درختوں میں پھر چہچہانے لگے ہیں
ہوائیں نئے گیت گانے لگی ہیں
پہاڑوں سے گرتے ہوئے آبشاروں میں پھر سے
دھنک مسکرانے لگی ہے
مجھے ایسے موسم میں
یادوں کے البم کو چھونے سے بھی خوف آنے لگا ہے
عجب کشمکش ہے
مرے ذہن و دل میں
میں اب پھر سے
محسوس کرنے لگا ہوں
کہ زخموں کو اپنے کریدوں
عجب کیا
کوئی روشنی کی کرن
مجھ کو اندر کی شرمندگی سے بچا لے