کس سے پوچھوں

کس سے پوچھوں
جب بھی کوئی
نظم مکمل ہو جاتی ہے
میرے اندر
ایک خلا کیوں
بھر جاتا ہے
کیوں مجھ کو ایسا لگتا ہے
جیسے میرے خواب کسی نے چھین لیے ہیں
زخموں کے مہتاب کسی نے چھین لیے ہیں
کس سے پوچھوں
نظم مکمل ہوتے ہی کیوں
بے چہرہ یادوں کے پنچھی
درد کے موسم
میرے بدن سے کیوں ہجرت کرنے لگتے ہیں
میرے اندر تنہائی کا خوف اترنے لگتا ہے کیوں
کس سے پوچھوں
لمحے بھر کی تخلیقی لذت کی خاطر
میں صدیوں کے غم سے اپنی محرومی پر
کیوں راضی ہو جاتا ہوں