ایک ضروری نظم
میری نظموں کے سادہ لوح قاری
تمہیں کیا علم
میں برسوں سے
اپنی سوچ کے جنگل میں تم کو
بے سبب بھٹکا رہا ہوں
بظاہر تم کو لگتا ہے
کہ میری ساری نظمیں
درد کے تاریک جنگل میں تمہاری ہم سفر ہیں
مگر یہ سچ نہیں ہے
مری نظموں کے سارے لفظ کاذب ہیں
مرے لہجے کا سارا کرب جھوٹا ہے
مری نظمیں تو
میرے ذہن و دل میں منتشر بے ربط نا آسودہ
امیدوں اور تمناؤں کا مسکن ہیں
مری نظمیں تو میری بھی نہیں ہیں
مری نظموں کے سادہ لوح قاری
تمہیں کیا علم