کاذب فرار
آج میں خود سے بہت دور نکل آیا ہوں اپنے جذبوں سے پرے اپنے خیالوں سے پرے اپنی یادوں کی وراثت سے پرے آج میں خود سے بہت دور نکل آیا ہوں دور اتنا کہ جہاں کوئی نہیں دور تلک کوئی ہمدرد نہیں کوئی بھی دم ساز نہیں صرف ٹوٹے ہوئے رشتوں کی سلگتی ہوئی ریت میری آنکھوں کے سمندر کی طرف اڑتی ہے دور ...