سلیم انصاری کی نظم

    کاذب فرار

    آج میں خود سے بہت دور نکل آیا ہوں اپنے جذبوں سے پرے اپنے خیالوں سے پرے اپنی یادوں کی وراثت سے پرے آج میں خود سے بہت دور نکل آیا ہوں دور اتنا کہ جہاں کوئی نہیں دور تلک کوئی ہمدرد نہیں کوئی بھی دم ساز نہیں صرف ٹوٹے ہوئے رشتوں کی سلگتی ہوئی ریت میری آنکھوں کے سمندر کی طرف اڑتی ہے دور ...

    مزید پڑھیے

    مری نظمیں تمہاری منتظر ہیں

    مرے خوابوں کے صورت گر مری سوچوں کے چہرہ گر کہاں ہو تم مری نظمیں تمہاری منتظر ہیں خفا ہیں لفظ لہجے بے صدا ہیں کئی دن سے تمہاری یاد کے پنچھی بھی میرے ذہن و دل کے آسمانوں پر نظر آتے نہیں ہیں ندی کہسار جھرنے پھول تتلی رنگ جگنو سب مری بے چارگی پر نوحہ خواں ہیں کوئی منظر مری بے چہرگی کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2