نقطہ
ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی میں سمٹتا جا رہا ہوں ایک نقطہ کی طرح میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی
پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں نمایاں۔ اینٹی غزل رجحان اور جدیدیت مخالف رویے کے لئے مشہور
One of the most prominent modern Urdu critics. Famous for his promotion of the Anti-ghazal trend of poetry and anti-modernism views.
ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی میں سمٹتا جا رہا ہوں ایک نقطہ کی طرح میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی
تو آؤ چلیں اب گھر چلتے ہیں دن کی تھکن اب شام ہوئی ہے سورج کو اپنے گہوارے میں سو جانے دو وہ بہت تھکا ہوا ہے سورج کی بیماری نے ہم سب کو تھکا دیا ہے کیا جانے کل کیا ہوگا کل تو اندیشے کو کہتے ہیں دیکھو ہم کتنے اندیشوں سے گزرے ہیں اور زندہ ہیں اس نے کہا تھا زندہ رہو اٹھارہ برس اٹھارہ برس ...
ایک قیافے کے ماہر نے مجھ سے کہا گہری چالیں چلنا اور دنیا کو دھوکے میں رکھنا آسان نہیں ہے لیکن تو چاہے تو یہ کر سکتا ہے تیرا چہرہ اک ہنس مکھ احمق کا چہرہ ہے
بچپن میں بوڑھوں سے سنا تھا کچھ لوگوں پر جن آتے ہیں جو ان کو بھگائے پھرتے ہیں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اپنے آپ نہیں کہتے ہیں جن ان سے کہلاتے ہیں اب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کچھ لوگوں پر لفظ آتے ہیں جو ان کو بھگائے پھرتے ہیں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اپنے آپ نہیں کہتے ہیں لفظ ان سے کہلاتے ...
مرے چاروں طرف ہیں میرے سائے خود اپنی تیرگی میں گھر گیا ہوں دیے کی طرح آدھی رات کو میں کسی خالی مکاں میں جل رہا ہوں
وہ ایک لمحہ جو ''اب'' نہیں ہے گزر چکا ہے وہ ایک لمحہ جو ''اب'' نہیں ہے ہے آنے والا گزر چکا ہے جو ایک لمحہ وہ میں نہیں ہوں ہے آنے والا جو ایک لمحہ وہ تو نہیں ہے کہ ایک لمحہ ہیں دونوں ہم تم وہ ایک لمحہ جو صرف ''اب'' ہے یہی ازل ہے یہی ابد ہے
اس نے جو ضرب لگائی مجھے بھرپور لگی میں نے جب وار کیا اس کی جگہ خالی تھی تھک گیا چور ہوا ہار گیا وہ مرا دشمن عیار مجھے مار گیا آخری وقت میں دیکھا تو وہ دشمن میرا اور تو کچھ بھی نہ تھا میری ہی پرچھائیں تھا
شام کو دفتر کے بعد واپسی پر گھر کی سمت میں نے دیکھا میرے بچے کھیل میں مصروف ہیں اتنے سنجیدہ کہ جیسے کھیل ہی ہو زندگی کھیل ہی میں سارے غم ہوں کھیل ہی ساری خوشی اے خدا! میرے فن میں دے مجھے تو میرے بچوں کی طرح کھیل کی سنجیدگی
اس نے لکھا تھا کسی کو مرے بچے خاک زرگر میں چھپے ذرے ہیں جن کو میں جاں کے عوض سونپ رہی ہوں تم کو مجھ کو کچھ زندہ کھلونوں سے محبت تھی جیسے عینی کسی ہمسایہ سہیلی کے کھلونوں کو اٹھا لاتی ہے اور سو جاتی ہے سینہ سے لگا کر ان کو داغ جو روح میں جسم پہ ہوتے تو مجھے لوگ اک جلتا ہوا شہر ...
بدن سن ہو گیا ہے بیٹھے بیٹھے مرے قد سے بھی چھوٹا یہ مکاں ہے میں اپنے پاؤں کچھ پھیلا تو لیتا مگر آفاق میں وسعت کہاں ہے