سورج کی بیماری

تو آؤ چلیں اب گھر چلتے ہیں
دن کی تھکن اب شام ہوئی ہے
سورج کو اپنے گہوارے میں سو جانے دو
وہ بہت تھکا ہوا ہے
سورج کی بیماری نے ہم سب کو تھکا دیا ہے
کیا جانے کل کیا ہوگا
کل تو اندیشے کو کہتے ہیں
دیکھو ہم کتنے اندیشوں سے گزرے ہیں اور زندہ ہیں
اس نے کہا تھا زندہ رہو
اٹھارہ برس
اٹھارہ برس جو نیند کی سانسیں بن کر گزر گئے
اور اب جلتی آنکھوں کی بیداری وہ حاصل ہے
جو لا حاصل ہے
میں اپنی ساری نیندیں بھول گیا ہوں
ہم سب اپنے خوابوں کا سودا کر کے جینا بھول چکے ہیں
اس نے کہا تھا زندہ رہو
جیسے زندہ رہنا میرے بس میں ہے
وہ سچی تھی لیکن میں نے اس کو جھوٹا سمجھا تھا
ٹھہرو مجھ کو دروازہ کھولنے دو
گھر کی دیواروں پر ویرانی ہے
میں آج تمہارے ساتھ سحر تک جاگوں گا
دونوں کھا کر گپیں ہانکے گی
میری میز پہ
فاقہ کش امیدیں
وہ روکھی سوکھی کھاتی ہیں
جو مایوسی سے بچ جاتی ہیں
میرے بستر پر بے خوابی کروٹیں لیتی ہے
اس نے کہا تھا زندہ رہو
کیا زندہ رہنا میرے بس میں ہے
میں تو سانسیں گن گن کر
اپنی گم گشتہ امیدوں کو
نوٹ بکوں میں لکھتا ہوں