الجھی سانسیں

اس نے لکھا تھا کسی کو
مرے بچے
خاک زرگر میں چھپے ذرے ہیں
جن کو میں جاں کے عوض سونپ رہی ہوں تم کو
مجھ کو کچھ زندہ کھلونوں سے محبت تھی
جیسے عینی کسی ہمسایہ سہیلی
کے کھلونوں کو اٹھا لاتی ہے
اور سو جاتی ہے
سینہ سے لگا کر ان کو
داغ جو روح میں
جسم پہ ہوتے تو مجھے
لوگ اک جلتا ہوا شہر سمجھتے
میں راکھ میں کیا ڈھونڈھتا ہوں
تو نے جلتے ہوئے دیکھا تھا اسے
داغ تھے جسم پہ اس کے جیسے
تیز جلتا ہوا موم
شمع کے جسم پہ جم جاتا ہے
جل بجھی
جل بجھی اور مجھے پھونک گئی
رشتے الجھی ہوئی سانسیں ہیں مگر
اس کی سانسیں تو کسی اور کا سرمایہ تھیں
اس کے جلنے سے مری راکھ کا رشتہ کیا تھا
مجھ کو خوابوں نے کبھی چین سے سونے نہ دیا
اس کے ہونٹوں نے جگایا تھا مری آنکھوں کو
داغ بوسوں کے
لبوں پر نہیں رہتے
لیکن
روح پر زخم سے بن جاتے ہیں
تو جدا ہو گئی جلتے ہوئے ہونٹوں کی طرح
یہ مرا خط تجھے اک بوسۂ نادیدہ ہے