بزم جہان شوق کا محور بھی میں ہی تھا
بزم جہان شوق کا محور بھی میں ہی تھا
اوراق دل پہ حرف مکرر بھی میں ہی تھا
جتنے بھی عکس تھے مرے اطراف میرے تھے
اندر بھی آئنے کے میں باہر بھی میں ہی تھا
برسوں سے جس پہ کوئی بھی دستک نہیں ہوئی
اس شہر بے چراغ میں وہ در بھی میں ہی تھا
میں نے ہی اس کے حسن کو بخشی تھی دل کشی
اس پیکر جمال کا مظہر بھی میں ہی تھا
الزام نا مرادیٔ منزل میں کس کو دوں
خود اپنی رہ گزار کا پتھر بھی میں ہی تھا
دیکھا تو دور تک مرا ہمسر نہ تھا کوئی
سوچا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا
بزم سخن کی رونقیں سب میرے دم سے تھیں
شہر سخنوراں میں سخنور بھی میں ہی تھا